قرآن کریم کی حرام کردہ اشیاءاور جدیدمیڈیکل سائنس

قرآن کریم کی حرام کردہ اشیاءاور جدیدمیڈیکل سائنس


جسم انسانی کی بقا اور صحت کے لیے صاف ستھر ی غذا کا استعمال ضروری ہے ۔قرآن سے استعمال غذا کے اصول بھی مترشح ہوتےہیں ۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿الاعراف : 31﴾

"کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا"

اس آیت سےکھانے پینے میں احتیاط اور ضرورت سےزیادہ کھانے سے احتراز کی ہدایت ملتی ہے ۔یہ بات بخوبی معروف ہے کہ حد سے زیادہ غذا کا استعمال سوء ہضم پیداکرکے معدہ جگر کے امراض پیدا کرسکتا ہے ۔علم طب میں غذا ؤں کے استعمال کی مقدار اور طریقہ استعمال تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے ۔صحت مند اور مریض دونوں قسم کے افراد کےلئے غذائیں حسب ضرورت تجویز کی جاتی ہیں ۔کھانے کے فورا ًبعددوبارہ کھانا،کو بھی مضرِ صحت بیان کیاگیا ہے ۔ایک وقت غذا استعمال کرنے کے بعد جب تک کہ وہ ہضم نہ ہو جائے دوسری غذا کا استعمال کرنےکی طب میں ممانعت ہے ،اس لیے کہ اس عمل سے سوء ہضم پیدا ہوگا جو غذا کو فاسد کردے گا اور موجب امراض معدہ وجگر ہو گا۔شیخ الرئیس ابوعلی سینا ؒ نے مذکورہ طبی اصول کو ایک قطعہ کی صورت میں پیش کیا ہے جو حسب ذیل ہے




الطب فی بیتین درج

پورافن طب دواشعار میں درج ہے

ققلل ان اکلت وبعد الکل

اگر کھانا کھاؤتو کم کھاؤ،کھانے کےبعد

ولیس علی النفوس اشد

نفوس پرا س سے سخت کوئی دوسری چیز



وحسن القول فی قصر الکلام

اورکلام کی خوبی اختصار کلام میں ہے

تجنب والشفاء فی الاہتضام

کھانے سے بچو کیونکہ صحت غذا ہضم ہونے میں ہے

من ادخال الطعام علی الطعام

نہیں ہے کہ غذا پر غذ ا کھائی جائے

حلال وحرام غذائیں


قرآن کی رو سے بعض غذائیں (ماکولات ومشروبات)حلال قرار دی گئی ہیں اور بعض حرام۔قرآن مجید میں پروردگار عالم کاارشاد ہے:

أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ﴿المائدہ :1﴾

تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کر لو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے

اس آیت کریمہ میں خدائے علیم نے بہائم کی حلت کا ایک عام حکم صادر فرمایا ہے مگر اس خیال سے کہ انسان تما م جانوروں کو اپنی غذا نہ بنا ڈالے اس حکم کو الا مایتلیٰ علیکم کے قانونی کلمات سے مشروط فرمادیا ۔اور بعض غذائیں اسلام میں حرام قرار دی گئیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے َ

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ﴿المائدہ : 3﴾

"تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستا نے پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ سب افعال فسق ہیں"

شراب اور جوئے کے متعلق حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا تو قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی :

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ ﴿البقرہ :219﴾

"پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے"

حرام غذاؤں کو طبی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ انسان کی صحت کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوں گی۔یہ غذائیں  معدہ ،جگر اور گردوں کے افعال کو خراب کردیتی ہیں او را ن کا اثر دل ودماغ پر بھی بہت برا پڑتا ہے ۔ اللہ رب العزت نے حلال اور پاکیزہ اشیاء کھانے کی سخت تاکید فرمائی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿168، البقرہ﴾
"لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے"

اور پھر سورۃ مائدہ میں پروردگار عالم نے مزید ہدایت فرمائی :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿87﴾ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّـهُ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ ﴿88

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کر لو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں۔ جو کچھ حلال و طیب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اُسے کھا ؤ پیو اور اُس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو"

ان آیات سے یہ بخوبی واضح ہوتا ہے کہ تمام حلال او ر صاف ستھری چیزوں کو غذا کے طور پر استعمال کرنا چاہیے تاکہ جسمانی صحت برقرار رہے ۔علم طب  بھی صاف ستھری چیزوں کے استعمال کو مفید ِصحت بتاتا ہے اور انہی کے استعمال کی ہدایت کرتا ہے اور گندی اور نجس چیزوں کے استعما ل کو مضرِ صحت اور موجب ِ امراض قراردیتا ہے ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ غذ ا کے باب میں قرآن کا حکم حفظان ِ صحت کے لئے بہت مفید ہے ۔

قرآن و حدیث اور فقہی کتب میں حلال وحرام غذاؤں کی فہرست دیکھنے کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ اسلامی شریعت میں  جو اشیاء حلال قرار دی گئی ہیں وہ انسان کی طبی ضرورت و حاجت کو پورا کرسکتی ہیں اور جو اشیاء حرام قرار دی گئی ہیں وہ صحت کے لئے نقصان دہ ہیں  او ران کے استعمال نہ کرنے سے صحت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی بلکہ انسان ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہے گا۔محرمات اور خبائث سےا جتناب ہمارا دینی فریضہ ہے جس میں ہماری صحت کے لئے بھلائی ہے ۔محرمات کی ایک طویل فہرست ہے ۔جن کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ذیل میں چند محرمات جیسے مردار ،خون ،لحمِ خنزیر اور شراب کا میڈیکل سائنس کی روشنی میں ذکر کیا جائے گا۔

خون

قرآن میں لفظ دم دیگر محرمات کےساتھ چار مقام پر آیا ہے ۔سورۃ البقرہ میں ہے :

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّـهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴿  183

"اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مُردار نہ کھاؤ، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کر ے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے"

اسی طرح المائدہ/3،النحل/115 اور الانعام /145 میں بھی اس کی حرمت کا ذکر ہے ۔مزید براں توریت وانجیل میں بھی حیوانات کے خون کا تذکرہ حرمت  کے ہی سلسلہ میں آیا ہے ۔ایک مقام پر ہے ۔

" سب جیتے جانور تمہارے کھانے لئے ہیں ،میں نے ان سب کو نباتات کی مانند تمہیں دیا ۔مگرگوشت خون کے ساتھ کہ اس کی جان ہے مت کھانا" (عہدنامہ قدیم۔پیدائش 4:9)

ایک اور مقام پر مسیحی شریعت  میں خون کی حرمت یوں بیان کی گئی ہے :

"تم بتوں کی قربانیوں کے گوشت سےاورلہو اور گلاگھونٹے ہوئے جانوروں اور حرام کاری سے بچو" (عہد نامہ جدید۔ اعمال، 29:15)

حرمت خون کے وجوہ واسباب

خون دو اہم اجزاء (خلیاتی حصے Cellular Part اور آب دموی Plasma ) پر مشتمل ہوتا ہے ۔آب دموی کے اندر 91-92 فیصد پانی اور 8-9 فیصد جامد اجزاء پائے جاتے ہیں ۔پھر جب ہم جامد اجزاء کا مطالعہ کرتے ہیں تواس میں غیر نامیاتی مادے (Inorganic Substance)اور نامیاتی مادے  (Organic Substance)کی ایک طویل فہرست ہے ۔البتہ جب ہم نامیاتی مادے کا مطالعہ کرتے ہیں توعقل حیران رہ جاتی ہے کہ اس میں کیسےکیسے خطرناک اجزاء ہوتے ہیں  ۔خون کے اندر (Non Protein Nitrogen Substance)کثیر مقدار میں یوریا ،یورک ایسڈ ،زینتھین (Xanthin)،کریٹینن(Creatinine)،امونیا (Ammonia)اور امینوایسڈ(Ammino Acid) وغیرہ پائے جاتے ہیں ۔(1)

کیا کوئی طبع سلیم نائڑوجن ،مرکبات یوریا ،امونیا اور یورک ایسڈ کھانا پسند کرے گا۔جب یہ بات اچھی طرح ثابت ہے کہ خون کا زیادہ تر حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے تو یہ غور طلب ہے کہ کیا تروتازہ ،شیریں اور لذت آمیز پانی کو چھوڑ کر جو ہماری صحت کے لئے (بہ نسبت بدشکل ،بدبودار اور بدمزہ خون سے)کہیں زیادہ اچھا ہے ،خون کو استعمال کریں ۔ اس کے علاوہ خون کی مثال ایک فضلہ کی سی ہے کیونکہ اس کا نصف حصہ کاربن کی موجودگی کی وجہ سے  Deoxygenated ہو جاتا ہے ،جو پھر بدن کے اندر ایک میکانیہ  (Mechanism)کے تحت قابل استعما ل ہوجاتا ہے ۔تو کاربن ڈائی اکسائیڈ جو ہمارےجسم کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے اسے کیوں استعمال کیا جائے ۔اس کے علاوہ خون کےا ندر مختلف قسم کے جراثیم ہمہ وقت تیرتے ہیں جو متعدد امراض پیداکرتے ہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ خون کا استعمال خطرات سے خالی نہیں ۔

خون کو قابل استعمال بنانے کے لئے اسے منجمد ہونے سے بچایا جاتا ہے ۔اس عمل کےلئے خون میں فائبرن(Fibrin) موجود ہوتی ہے ،اس کو علیٰحدہ کردیا جاتا ہے اور اب جو خون بچا رہتا ہے اس کوDefibrinated  Blood  کہا جاتا ہے ۔ اس قسم کے خون میں 9/10 حصہHemoglobin  اور 1/10 حصہ Globulin  ہوتی ہے۔ جب یہ دونوں اجزاء انسان کے معدہ میں پہنچتے ہیں تو وہ نہ ہضم ہونے والی Haematin  میں تبدیل ہوکر یوں ہی بے کار معد ہ میں پڑے رہتے ہیں جس سے صحت پر مضر اثرات کاخطر ہ رہتا ہے ۔(2)

ایک سوال اور اس کا جواب

ایک سوال ذہن میں پیدا ہوسکتا ہے کہ جب خون حرام ہے تو انتقال الدم (Blood Transfusion)کی صورت میں اس پر کیا حکم عائد ہوگا۔ ہمیں معلوم ہے  کہ علاج ومعالجہ میں انتقال الدم کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کوئی مریض خون کی کمی کی وجہ سے دم توڑ رہا ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہےکہ خون مریض کے اندر جان پیدا کرسکتا ہے تو ایسی صورت میں بعض فقہاء کے نزدیک خون کا استعمال جائز ہے ۔

اسلامی شریعت کی رو سے انسان کے لئےمحرمات کا ستعمال اس وقت مباح ہے جب بھوک اور پیاس سےا س کی جان نکلی جارہی ہو اور کوئی حلال وطیب چیز کھانے کو میسر  نہ ہو ،بشرطیکہ اس کا ارادہ نافرمانی اور زیادتی کا نہ ہو جیسا کہ سورۃ البقرہ کی  آیت 173 سے واضح ہوتا ہے ۔یہ حکم قرآن نے ایک  اور جگہ  بیان کیا ہے :

فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿المائدہ : 3﴾

(لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

المیتہ (مردار)

یہ لفظ بھی قرآن مجید میں دیگر محرمات کے ذیل میں چار مقام پر آیا ہے ۔ سورہ البقرہ /173،سورہ المائدہ/3،سورہ الانعام/145 اور النحل /115۔ سورہ المائدہ کی آیت ملاحظہ ہو۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ  ﴿الامائدہ : 3﴾

"تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستا نے پر ذبح کیا گیا"

انسان بنیادی طور پر جفاکش ،جاں گسل اور محنتی بنایا گیا ہے ،مستزاد اس کی عقل اور اس کی حس ،وہ سرمایہ گر انما یہ ہے جو اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے ،ورنہ انسان بھی جانوروں کی طرح گری پڑی ،سڑی گلی اور گندی وناکارہ چیزوں کو کھا پی لیتا۔مگر انسان کی اشرفیت ایسا کرنے سے روکتی ہے ۔یہاں تک انسان جب غیر مہذب تھا اور وہ اپنے شب وروز جنگلوںمیں گزارتا تھا اس وقت بھی وہ اپنی خوراک کا انتظام تازہ پھلوں،آبشاروں ،زندہ مچھلیوں اور جانوروں کے ذریعہ کرتا تھا ۔تنگ دامنی کی حالت میں بھی وہ مردار اور گندی چیزوں کو کھانا پسند نہیں کرتا تھا ۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ مردار اور ناپاک چیزوں سے نفرت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔یہ قرآن کی تعلیم ہے جو دین ِفطرت کا ترجمان ہے۔جدید سائنسدان بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انسان بہت پہلے اپنی مفید وغیر مفید غذا سے واقف تھا۔بقول ایک سائنسدان :

" عرصہ دراز سے انسان اپنے تجربات کی بنیاد پرجان چکا تھا کہ اسے کون سی غذا استعمال کرنی چاہیے اورکون سی نہیں ۔کئی سوسال قبل مسیح سے یہ بات اس کے ذہن نشین ہوچکی تھی کہ عام حالت میں مردہ جانور غذا کے طور پر استعمال نہ کئے جائیں" (3)

واقعہ یہ ہے کہ مردار کھانے کے جو نقصانات جدید میڈیکل سائنس نے واضح کئے ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو قرآن کے حکم کی مصلحت وحکمت مزید آشکارا ہو جائے گی ۔مثال کے طور پر اگر کسی جانور کی موت زہریلی چیز جیسے پھپھوندی اور Shell Fish کھانے کی وجہ سے ہوئی ہے تو زہر اسی حالت میں  بذریعہ خون اس کے بدن میں سرایت کرجاتا ہے ۔ اسی طرح اگر اس کی موت جراثیم یا وائرس ہوئی ہے تب بھی اس کاکھانا بڑے ضرر کا باعث ہوگا۔

علاوہ ازیں مردار میں تعفن بہت جلد پیدا ہو جاتا ہے جس کا سبب مختلف قسم کے جراثیم ہوتے ہیں جو زندگی کی حالت میں تو نقصان نہیں پہنچاتے مگر مرنےکے فوراً بعد حملہ شروع کردیتےہیں جس کے نتیجہ میں بدن مکمل طور سے ایک غیر عضوی مواد بن جاتا ہے ۔ عصر حاضر کے ممتاز فقیہ علامہ یوسف القرضاوی مردار کی تحریم کی حکمت اور مصلحت بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

"طبع سلیم مردار سے نفرت کرتی ہے ،عام طور سے اہل دانش مردار کھانا باعث ِ احتقار سمجھتے ہیں ۔اور اسے انسان کے شایان شان خیال نہیں کرتے ،یہی وجہ ہے کہ تمام کتابی مذاہب مردار کو حرام قراردیتےہیں اور ذبح شدہ جانور ہی کوکھانا پسند کرتے ہیں ۔گوکہ ذبح کرنے کا طریقہ مختلف ہے ۔اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں کہ کوئی ایسی چیز کھائی جائے جس کے حصول کا اس نے قصد و ارادہ نہ کیا ہو ۔ مردار کا معاملہ ایسا ہی ہے ،البتہ جس جانور کو ذبح کیا جاتا ہے یا جس کا شکا ر کر لیا جاتا ہے ،اس میں انسان کے قصد اور سعی و عمل کا دخل ضرور ہوتا ہے ۔جو جانور اپنی موت مرا ہو اس کے بارے میں یہ احتمال ہے کہ اس کی موت دائم المریض ہونے یا حادثہ کا شکار ہونے یا زہریلی نباتات کھانے سے واقع ہوئی ہو، ایسی صور ت میں ضرر کا اندیشہ ہے اور یہ اندیشہ اس صورت میں بھی ہوتا ہے جبکہ ضعف یا طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ مرگیا ہو۔اللہ تعالیٰ نے مردار کو حرام قرار دےکر چرند پرند کے لئے اپنی رحمت سے غذا مہیا کردی ہے کیونکہ وہ بھی ہماری طرح امت ہیں :(4)

لحم خنزیر

ا س کے  متعلق میرا یہ مضمون پڑھ لیا جائے۔

شراب

قبل اسلام قومِ عرب شراب کی جتنی رسیا تھی شاید کہ دوسری اور قوم رہی ہو۔اسی لئے اسلام نے اسے یک لخت حرام نہیں قرار دیا ۔ کیونکہ یہ حکم ان پر بہت شاق گزرتا۔ چناچہ اس کے بارے میں امتناعی حکم بتدریجاً ناز ل ہوا ۔ ارشاد ہوتا ہے:

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ  ﴿البقرہ : 219﴾

"پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے"

دوسرے مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم صادر فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ  ﴿النساء :43﴾

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ"

حکم امتناعی کا یہ پہلا درجہ تھا جس میں بتایا گیا کہ اسے فائدہ سمجھ کر استعمال نہ کیا جائے ،اس کے نقصانات اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات اور اس کا گناہ ،فوائد سے کہیں زیادہ ہے ۔چناچہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بعد صحابہ کرام ؓ کی اچھی خاصی تعدا د شراب سے اجتناب کرنے لگی ۔آخر میں اللہ تعالیٰ نے صریح اور واضح الفاظ میں اس کی ممانعت کا حکم جاری فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿المائدہ : 90﴾

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی"

درحقیقت انسان شراب پینے کی وجہ سے عقل وشعور سے محروم ہو جاتا ہے۔شراب بقائے باہم کے رشتہ کو ختم کردیتی ہے۔اخوت ومحبت اور ہمدردی و بھائی چارگی کا گلا گھونٹتی ہے ۔یہ وہ نشہ ہے جس سے بدمست ہو کر انسان ایسی ایسی حرکتیں کر ڈالتا ہے جس سے انسان تو انسان جانور بھی شرمند ہ ہو جاتے ہیں ۔اسی لئے حدیث میں شراب نوشی کو تمام برائیوں کی جڑ کہا گیا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(الخمر ام الفواحش واکبر الکبائیر )

شراب برائیوں کی ماں ہے اور یہ تمام برائیوں میں سب سے بڑی برائی ہے۔(5)

اخلاقی بگاڑ کے علاوہ طبی نظر سےدیکھاجائے تو شراب کے اور خطرناک پہلو سامنے آتے ہیں ۔جدید میڈیکل سائنس کےماہرین کو بھی ان کا بخوبی احساس ہے جیسا کہ اس تحریر سے واضح ہوتا ہے :

“According to current concept, alcoholism is considered a disease and alcohol  a: “Disease Agent” which causes acute and chronic intoxication ,cirrhosis of  liver, toxic psychosis, gastritis, pancreatitis, cardiomyopathy and peripheral neuropathy, also evidence is mounting that it is related to cancer of the mouth, pharynx, larynx and esophagus”

(جدید خیال کے مطابق شراب نوشی کو ایک مرض اور شراب کو مرض پیداکرنے والا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے ،یہ بہت سے امراض کا سبب بنتا ہے ۔جیسے حادو مزمن(Acute and chronic Intoxication )،تلیف کبد(Cirrhosis of  Liver)،ورم معدہ(Gastritis)،ورم بانقراس(Pancreatites)،کارڈیومایوپیتھی(Cardiomyopathy)،اور Peripheral Neuropathy  ۔ نیز اس بات کے شواہد بھی دسیتاب ہیں کہ شراب سے منہ ،حلقوم (Pharynx)،حنجرہ(Larynx) اور مری (Oesophagas)کا کینسر ہوتا ہے)۔(6)

ڈاکٹر ہوارڈہیگرڈ Yale یونیورسٹی میں عملی نفسیات کے پروفیسر ہیں اور پروفیسر ای ایم جنیک  جو "الکحلزم"کے مطالعہ کے ادارہ کو اسی یونیورسٹی میں چلاتے ہیں اپنی تحقیقات میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مغربی ممالک میں شراب پینے والوں کی تعداد کروڑوں کےلگ بھگ ہے جس میں دو کروڑ عورتیں اس بری عادت میں گرفتار ہیں ۔پروفیسر صاحب نے حساب لگایا ہے کہ امریکہ میں ایک کروڑ کے قریب ایسے شرابی ہیں جو جسمانی اور دماغی اعتبار سے اپنی زندگیاں ختم کرچکے ہیں اور برائے نام زندہ ہیں ۔ قومی آمدنی میں خسارے کا یہ عالم ہے کہ شراب نوشی کی بدولت ان ممالک کو ہرسال مزدوروں کی عدم کارگردگی کے ضمن میں 1500 کروڑ ڈالر،  متعلقہ جرائم کی مد میں 800 کروڑ ڈالر، حادثات کےسلسلے میں  2500 کروڑ ڈالر ، شرابیوں کے طبی اخراجات کی بدولت 1700 کروڑ ڈالر  اور شرابیوں کے قید خانوں کے انتظام میں 900 کروڑ ڈالر کا صرفہ برداشت کر نا پڑتا ہے ۔ اس  طرح گویا محض شراب نوشی کی وجہ سے تقریبا ً 374 کروڑ ڈالر کا بار ملک پر عائد ہوتا  ہے ۔ اس کے علاوہ اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ گھرانوں کی ابتری ،دماغوں اور صلاحیتوں کی بے کاری اور شخصیتو ں کی تباہی سے کتنا قومی نقصان ہوتا ہے ۔اس بنیاد پر ڈاکٹر سیلڈن بیکن جو یالے یونیورسٹی میں عمرانیات کے پروفیسر ہیں ۔  " الکحلزم " کی تحقیقات کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ " الکحلزم " ان زبردست مسائل میں سے ایک ہے جن سے ہمارا ملک دوچار ہے اس نے عوام میں خوف اور نفرت کے جذبات پیدا کردئیے ہیں اور افراد کےاندر اطمینان قلب  اور خوش حالی کو متاثر کر رکھا ہے ۔مغرب میں عام طور پر سینکڑوں ہزاروں عورتیں اپنے دن تلخی اور شکست خوردگی کے احساس کے ساتھ  محض اس وجہ سے گزار رہی ہیں  کہ ان کے شوہروں کو شراب کی لت ہے  کیونکہ جب تک کسی عورت میں غیر معمولی صبراور رواداری کا جذبہ نہ ہو وہ ایک شرابی شوہر کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتی ۔

اس مسئلے میں موجودہ طبّی اور نفسیاتی تحقیقات کا لب لباب یہ ہے کہ شرابیوں میں سے کثیر تعداد کی شخصیت بالآخر اس درجہ بدل جاتی ہے  کہ و ہ سماج کے حق میں مجانین سے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوں ، شرابی اپنا توازن ،دماغی جذبات پر قابو،خوداعتمادی اور دوسروں پر اعتبار سب کچھ کھو بیٹھتا ہے اور اکثر اپنی محبوب ترین ہستیوں سے وحشیانہ سلوک کرنے لگتا ہے ۔ ڈاکٹر گلن سشیفرڈ کا قول ہے ،شراب کی تھوڑی مقدار بھی صلاحیت و کارکردگی کو عارضی ہی سہی مگر کم ضرور کردیتی ہے  گور فتار بظاہر کچھ تیز ہی محسوس ہو ۔ ایک اور ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ شراب کا تھوڑی مقدار میں استعمال بھی ایک  تو احساس اور ردعمل کی رفتار کو گھٹاتا ہے اور دوسرے جھوٹی خود اعتمادی پیداکرتا ہے  ،تیسرے انہماک کو کم کرتا ہے  اور چوتھے بصارت کو ضعیف کردیتا ہے ۔ اس عام انحطاط کا صحیح مظاہرہ  گاڑی چلانے میں ہوتا ہے ۔

غالباً 30 جون 1952 ء کو کینیڈا کے دار لعوام نے اپنے ملکی قانون میں ایک ترمیم منظور کی تھی جس کی رو سے طے ہوا کہ اگر کوئی شخص ایسی حالت میں موٹر چلائے جب شراب کے استعمال سے اس کی صلاحیت متاثر ہو چکی ہو تو اسے جرمانے کی سزا دی جائے گی جس کی مقدار 50 سے 500 ڈالر تک یا قید کی ،جس کی میعاد تین ماہ تک ہو سکے گی ،یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔دارلعوام میں اس تحریک کی منظوری حاصل کرتے ہوئے وزیر عدل وانصاف اسٹوارٹ گارسن نے اپنی تقریر میں کہا تھا ، اب سائنٹیفک تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ شراب موٹر چلانے والے کی قابلیت کو اس طرح کم کرتی ہے کہ آدمی اپنی معمولی کیفیت سے موٹر نہیں چلاسکتا ۔اگرچہ اسے نشہ بالکل ہی نہ چڑھا ہو ۔شراب موٹر رانوں میں  جھوٹی خود اعتمادی پیدا کرتی ہے  جس کانتیجہ غیر ذمہ داری کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ شرابی کی حس اور ردعمل کی قوت کمزور اور سست پڑ جاتی ہے  ۔چناچہ اب مغربی ممالک کے علاوہ امریکہ اور کینیڈا میں بھی شاہراہوں پر جگہ جگہ ایسی تختیاں جلی حروف میں لگی نظر آئیں گی جن پر تحریر کیا گیا ہے اگر تمہیں موٹر چلانا ہے تو شراب نہ پیو اور اگر شراب پینا ہے تو موٹر نہ چلاؤ۔

قرآن کی واضح آیات اور طبی تحقیقات کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ دعوٰٰ ی کرتا ہے کہ شراب پینے سے چستی اور نشاط حاصل ہوتا ہے ،یہ نظام ہضم کو درست رکھتا ہے یا قوتِ مردانگی کو بڑھاتا ہے تو یہ حقائق سے کھلا ہو ا انحراف ہے۔دین اسلام نے اس شیطانی چیز کو بہت پہلے انسانی زندگی کے لئے سخت مضر قرار دیا تھا مگرا ب تقریبا ً ہر بڑے مغربی ملک میں بھی سائنسدان اپنی تحقیقات کا رخ شراب نوشی کی انسداد ی طبّی تدابیر اور دواؤں کی  دریافت کی جانب موڑ رہے ہیں۔ امریکہ میں کئی دوائیں اس قسم کی تیار کی گئی ہیں ۔ مثلاً اینٹی ایبوز(Anti abuse) ۔ انگلستان میں بھی انسدادی تدابیر کی تحریک زور پکڑتی جارہی ہے ۔ اس تحریک کا نام ( Alcoholics  Anonymous) ہے ۔ اس کے رکن ایک دوسرے کو شراب چھوڑنے میں مدد دیتے ہیں ۔ مزید تفصیلات انٹرنیٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

چناچہ قرآن اور حدیث کے اندر صحت اور حفظ صحت سے متعلق نہایت عمدہ اصول و ضوابط بیان کئے گئے ہیں۔ خاص طور سے ماکولات ومشروبات (غذا او رپانی ) سے  متعلق جو ہر انسان کے لئے زندگی کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے ،بہت مفید تعلیمات وہدایات ملتی ہیں ۔ اسلام کے نزدیک وہ چیزیں جن کا استعمال صحت اور اس کی بقا کے لئے مفید ومعاون ہے وہ حلال ہیں جس کی ایک طویل فہرست ہے ۔ اسی طرح شریعت میں  (جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے ) مردار، خون ،لحم خنزیر اور شراب  یہ ساری چیزیں حرام اور نجس ہیں  ۔ ان کا کھانا صحت کے لئے نقصان دہ ہے ۔ آج کی میڈیکل سائنس نے ان کے  مضر اثرات  اور اس  کے خطرناک پہلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے ،جس سے اچھی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ یہ چیز یں صحت کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں۔

ماخذ:


1): R.L. Bijlani, Understanding medical physiology, Jaypee Brothers Delhi,(2nd Edition).PP. 45-90

2): ڈاکٹر میر گوہر علی،تذکرہ حیوانات(قرآن کریم میں )مرکزی مکتبہ اسلامی ،دہلی ،1998،ص 8-207

3): ڈاکٹر میر گوہر علی،تذکرہ حیوانات(قرآن کریم میں )مرکزی مکتبہ اسلامی ،دہلی ،1998،ص 205

4): علامہ یوسف القرضاوی،اسلام میں حلال وحرام ۔ ص 62

5): حافظ نور الدین علی بن ابی بکرالہیشمی ،مجمع الزوائد باب ماجاء فی الخمر ومن یشر بھا۔ 5/27

6): K.Park. P569

بحوالہ: قرآن اور سائنس  ۔ترتیب وتدوین از پروفیسر عبدالعلی اور ڈاکٹر ظفرالاسلام245-280

7): سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں از مولانا ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری ص 202 -205

1 تبصرے

  1. اسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
    یہ تحریر ماشاءاللہ ایک زبردست تحریر ہے۔مصنف نے بہت محنت کر کے مختلف جگہوں سے موتی سمیٹ کر ہم سب کے لیے یکجا کر دیے ہیں ۔۔۔اللہ ان جزائے خیر عطاء فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی