سطح زمین پر سب سے پست ترین مقام اور رومیوں کی فتح کی خوشخبری

سطح زمین پر سب سے پست ترین مقام اور رومیوں

 کی فتح کی خوشخبری


اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے

(الم o غُلِبَتِ الرُّ وْمُ o فِیْ اَدْنَی الْارْضِ وَہُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ o

فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ ط )

''الم۔ رومی قریب کی (نشیبی )سرزمین میں مغلوب ہوگئے۔ تاہم وہ مغلوب ہونے کے چند ہی سال بعد پھر غالب آ جائیں گے'' (1)

اللہ تعالیٰ نے سورة روم کی ابتداء میں ہی دو عظیم باتو ں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک تو یہ خوشخبری تھی کہ اہل (2)روم جو کہ اس وقت ایرانیوں کے آگے مغلوب ہوچکے ہیں وہ عنقریب (دس سال سے کم عرصہ میں )دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گئے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 614ء میں خسروپرویز نے روم کے بادشاہ ہرقل کو شکست فاش دی تھی۔ اس طرح دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی ہرقل نے اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہوئے2ہجری 624ء میں ایرانیوں پر فتح حاصل کرلی۔ اس طرح قرآن مجید کی یہ عظیم پیشین گوئی حرف بحرف سچ ثابت ہوئی اور بہت سے کافر اسی وجہ سے مسلمان ہوئے۔عربی زبان میں بضع کااطلاق دس سے کم پر ہوتاہے۔


دوسری پیشین گوئی اس میں لفظ ''ادنی '' ہے۔ عربی زبان میں ادنیٰ کامعنی اقرب بھی ہے اورنشیب بھی۔ نشیب کے مقابلہ میں بلندی ہوتی ہے۔ گویاادنی کامعنی ہے نیچا'یعنی نشیبی علاقہ۔ لہٰذا ''ادنی الارض ''سے مرادنشیبی علاقہ ہے۔ اوراس سے مراد فلسطین کانشیبی علاقہ ہے۔ یعنی بحیرہ مردار (Dead Sea)،جو سطح سمندر سے 392میٹر نیچے ہے۔(3)

چنانچہ جب زمین کے سب سے نچلے حصہ کی تلاش وتحقیق ہوئی تو وہی مقام نکلا جہاں رومیوں کو لڑائی میں شکست ہوئی تھی۔ اوریہ بحرہ مردار میں وہ جگہ ہے جو دنیا میں سب سے نشیبی یعنی سطح سمندر کے لحاظ سے سب سے پست ترین مقام ہے۔ اوراس کی گہرائی 408میٹر یا 1340  فٹ ہے۔ (4)

پروفیسر پالمر(Professor Palmer)امریکہ کے ایک صف اول کے ماہر ارضیات ہیں ان سے مسلمانوں کے ایک گروپ نے ملاقات کے دوران جب ان کو قرآن وحدیث میں موجود سائنسی معجزات کے بارے میں بتایا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ اور جب ان کو مندرجہ بالا آیت کی طرف متوجہ کیا گیا جو زمین کے پست ترین مقام کو ظاہر کرتی ہے تو وہ بہت متعجب ہوئے او رکہا :


دنیا میں اوربھی ایسے مقامات ہیں جو قرآن مجید میں مذکور مقام سے بھی بہت نشیب میں ہیں۔ انہوں نے یورپ اورامریکہ میں ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی اوران کے نام بھی بتائے۔ ان کو اصراراً بتایا گیا کہ قرآنی معلومات بالکل درست ہیں۔ان کے پاس جغرافیائی کرہ  (Topographical Globe)   موجود تھا جو ارتفاع (Elevation) او ر نشیب (Depression)  بتاتاتھا۔ انہوں نے کہا کہ اس ارض نما کرہ کے ذریعہ زمین کے پست ترین مقام کی نشاندہی کویقینی بنایا جا سکتا ہے۔انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ارض نما کرہ کو گھمایا تو وہ یروشلم کے نزدیک کے علاقے پر ایک مخصوص نشان پر مرتکز ہو گیا۔ ان کو تعجب ہواکہ اس علاقے کی جانب ایک علامت ان الفاظ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔

"The lowest Part on the face of the Earth"

''سطح زمین پر سب سے پست ترین مقام ''

پروفیسر پالمر نے تسلیم کرلیا کہ آپ (مسلمانوں )کی اطلاعات بالکل درست ہیں ، انہوں نے گفتگو جاری رکھی اورکہا کہ جیسا کہ آپ اس ارض نماکرہ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ یہی کرہ ارض پر سب سے پست تر ین زمینی مقام ہے۔ یہ بحر مردار (Dead Sea)کے علاقے میں واقع ہے۔ اوردلچسپی کی بات یہ ہے کہ ارض نما کرہ پر نشان لگا ہو اہے۔ 

Lowest Point

پروفیسر پالمر کی حیرانگی اس وقت مزید بڑھی جب انہوں نے دیکھا کہ قرآن مجید ماضی کے متعلق بھی گفتگو کرتاہے اوروضاحت کرتاہے کہ تخلیق کی ابتدا کیسے ہوئی۔ زمین وآسمان کی تخلیق کیسے ہوئی۔ زمین کی گہرائیوں سے پانی کے سوتے کیسے پھوٹے اور کس طرح پہاڑزمین پر مستحکم ہوئے۔ روئیدگی کے عمل کی ابتدا کیسے ہوئی ،زمین کیسی تھی۔ پہاڑوں کی تفصیلات، اس کے مظاہر کی تفصیلات ،سطح زمین پر جزیرہ عرب کی شہادتوں کی تفصیلات۔ پھر قرآن مجید مستقبل میں عرب کی زمین اوردنیا کے مستقبل کی بھی وضاحت کرتاہے۔ اس موقع پر پروفیسر پالمر نے تسلیم کر لیا کہ یہ ایسی کتاب ہے کہ جو ماضی ،حال اورمستقبل کی تفصیلات بتاتی ہے۔

دوسرے سائنس دانوںکی طرح پروفیسر پالمر پہلے تو ہچکچائے لیکن بعد میں انہوں نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہارکیا۔ انہوں نے قاہرہ میں ایک کانفرنس میں اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا جو کہ قرآن مجید میں ارضیاتی علوم سے متعلق معلومات پر مشتمل ایک بے مثال مقالہ تھا۔


انہوں نے کہا کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سائنس کے شعبہ کے رسم معمولہ کیا تھے لیکن اس وقت علم اوروسائل کی کمی کے متعلق ضرور معلومات ہیں۔میں بغیر کسی شک وشبہ کے کہہ سکتاہوں کہ قرآن مجید آسمانی علم کی روشنی ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل ہوا تھا۔ ان کے مقالہ کے آخری ریمارکس یہ تھے:

'' ہمیں مشرق وسطیٰ کی ابتدائی تاریخ اورزبانی روایات کی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کیا یہ تاریخی واقعات (اس زمانے میں)دریافت ہو چکے تھے۔ اگر کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ہے تویہ بات اس عقیدہ کو مضبوط بناتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذریعہ ان علمی پاروں کو منتقل کیا جو آج موجودہ وقت میں دریافت ہوئے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ قرآن مجیدمیں ارضیاتی تحقیق کے حوالے سے سائنسی موضوع پر گفتگو (تحقیق )جاری رہے گی۔ بہت بہت شکریہ''(5

بہرحال یہ قرآن مجید کی حقانیت کا ایک ایسا ثبوت ہے کہ جسے جھٹلانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اہل غوروفکر کے لیے اس میں ایک واضح پیغام پنہاں ہے۔ 

...................................................................................

 حواشی

(1)۔     30:1-4

(2)۔تفہیم القرآن ،جلد سوم ،صفحہ725-727

(3)۔  اطلس القرآن،ناشر دارلسلام ریاض ،صفحہ 282

(4)۔GEM Advanced Practical Dictionay Azhar Pub. Lahore. Page. 1594.

 www.ecology.com/.../ earth-at-a-glance-feature

(5)۔ سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ115-118

www.islam-guide.com

 

7 تبصرے

  1. ماشاء اللہ بہت اچھا مضمون ہے۔ جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشااللہ بہت اچھا مضمو ن ہے۔بے شک قران اللہ کی سچی کتاب ہے
    سبحان اللہ مز کورہ ایت میں و ھم من بعد غلبھم۔۔۔۔

    درست ہوگا۔۔۔۔۔۔پرنٹنگ پہ توجہ دی جاے ۔ جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. ایت کو درست پرنٹ کرنے کی طر ف تو جہ دو بارہ
    د لا رھی ہوں
    و ھم من بعد غلبھم ۔۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. یہ بھی درست ہے مگر قرانی خٍط ہی میں زیادہ مناسب ہے
    آپ کو اللہ تعا لی بہت جزادے بہت نیک کام کر رھے ھیں

    جواب دیںحذف کریں
  5. محترمہ تسنیم صاحبہ
    جس طرح عموماً قرآن میں لکھا جاتا ہے یہاں اس طرح لکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم کوشش یہی کی جاتی ہے کہ اعراب کو درست لکھا جائے۔ یہ المصحف فانٹ ہے اور یہ بھی قرآنی خط ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی قرآنی خط ہیں ۔ من کے بعد م ہے اس کو فی الحال چھوٹا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور پڑھنے والا اس کو بغیر غلطی کے صحیح پڑ ھ بھی سکتا ہے۔قرآن میں اعراب لکھنے کے لیے خاص طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جو میرے لیے ممکن نہیں ہیں اور نہ مجھےکچھ زیادہ علم ہے۔ اس لیے اس طرح کی چیزوں کو نظر انداز کردیا کریں۔ مگر کسی بڑی غلطی کی طرف ضرور توجہ دلائیں ۔ شکریہ۔ جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  6. The lowest known point is Challenger Deep, at the bottom of the Mariana Trench: 10,911 m (35,797 ft) below sea level.[3] Only three humans have reached the bottom of the trench: Jacques Piccard and US Navy Lieutenant Don Walsh in 1960 aboard the Bathyscaphe Trieste , filmmaker James Cameron in 2012 aboard the Deepsea Challenger.

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی