انسان کی جلد میں درد کو محسوس کرنے والانظام

انسان کی جلد میں درد کو محسوس کرنے والانظام


سطحی رقبے کے لحاظ سے انسانی جسم کا سب سے بڑا اوراہم ترین جزوجلد ہی ہے۔ یہ نہ صرف تمام جسم کو بیرونی طورپر ڈھانپتی ہے ،بلکہ جسم کے سوراخوں (منہ ،ناک ،کان ،پیشاب اورپاخانے کے سورا خ)میں اندر تک جاتی ہے۔ حتیٰ کہ آنکھ کے ڈیلے پر بھی یہ ایک باریک شفاف جھلی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ مزید یہ کہ جسم پرموجود بال اور ناخن بھی حقیقت میں جلد ہی کے زائدے ہیں۔ یہ جلد جسم کے اعضا کو بیرونی صدموں اورچوٹوں سے بچاتی ہے۔ نیز جراثیم اور دیگر خوردبینی جانداروں کے حملے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ سورج سے آنے والی بالائے بنفشی شعاعوں سے بھی جسم کو بچانا اس کا کام ہے۔
جلد میں خون کا ایک الگ ترسیلی نظام ہوتاہے اورخون کی نہایت باریک شعری نالیاں جلد کے اندرونی حصے میں بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔جلد کی بیرونی سطح پر اعصاب کے بہت سے سرے پائے جاتے ہیں جو جسم کو بیرونی طورپر درپیش حالات کی اطلاعات دماغ تک پہنچا تے ہیں۔

انسانی جلد کی موٹائی 0.05سینٹی میٹر سے 0.65سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ یہ آنکھ کے پپوٹوں پر سب سے پتلی اورپاؤں کے تلووں پر سب سے موٹی ہوتی ہے۔ انسانی جلد کاکل وزن اڑھائی سے ساڑھے چارکلوگرام تک ہوتاہے۔ یہ وزن پورے جسم کے وزن کے سولہویں حصّے کے برابر اورجگر یا دماغ کے وزن سے دوگنا ہوتاہے۔ جسم میں گردش کرنے والے سارے خون میں سے ایک تہائی خون اس کی سطح تک پہنچتاہے۔ اس کا کل سطحی رقبہ 20,000مربع سینٹی میٹر ہے یعنی اگر اسے کسی ہموار تختے پر پھیلایا جائے تو دو میٹر لمبائی اورایک میٹر چوڑائی کی ایک چادر بنتی ہے۔ اس کے ہر مربع سینٹی میٹر میں کل 30,00,000خلیات پائے جاتے ہیں۔جن میں اوسطاً 10 بال ، چکنائی پیداکرنے والی غدود، عصبی ریشوں کے سروں پر موجود 3000حسی خلیات ،عصبی رگیں4 گز، لمس کی تحریک وصول کرنے کے لیے 25فشاری آلات ،درد کو ریکارڈ کرنے والے 200اعصاب کے سرے ،ٹھنڈک محسوس کرنے والے 2آلات اورگرمی وصول کرنے والے کل 12آلات پائے جاتے ہیں۔ اب پوری جلد میں ان ساختوں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ان اعداد کو 20,000سے ضرب دے لیں۔
یہ جسم کے بیرونی جراثیموں کے خلاف بھی ایک رکاوٹ ہے۔ اس رکاوٹ کے باعث جراثیم جسم میں براہ راست داخل نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی وجہ سے جسم پر جلد کا یہ غلاف کہیں کٹ پھٹ جائے تو اس جگہ سے جسم ننگا ہو جاتاہے اورجراثیموں کے لیے اندر داخل ہونے کا راستہ کھل جاتاہے۔ تاہم جسم کے خودکار مدافعتی نظام کے باعث یہ جراثیم باہر ہی خون کے خلیوں سے لڑ مر کر ختم ہو جاتے ہیں اور اس دوران جلد پر لگنے والا یہ زخم ایک ماہر رفوگر سے بھی زیادہ ماہر انہ انداز میں خودبخود مندمل ہوجاتاہے، اس کے بعد بہنے والا خون گاڑھاہو جاتاہے اورپھر جیلی کی طرح جم جاتاہے اورزخم کا منہ خود بخود بند ہو جاتاہے۔ اس جمے ہوئے خون میں چھوٹے ریشے ہوتے ہیں جو ایک طرح کاجال سا بُن دیتے ہیں۔تھوڑے عرصے میں یہ کٹی ہوئی جلد مرمت ہوجاتی ہے اور جما ہو ا خون آہستہ آہستہ سخت ہو کر کھرنڈ بن جاتاہے اورپھر خودبخود جھڑجاتاہے۔
جلد میں جگہ جگہ ننھے منے اعضائے حاسہ بھی موجود ہوتے ہیں۔یہ حسی اعضا لمس ،حرارت، سردی ،دباؤ اوردرد کو محسوس کرتے ہیں۔اورجسم کے مختلف مقامات پر ان کی تعدا د مختلف ہوتی ہے۔ یہ اعصاب مرکزی عصبی نظام سے آنے والی تحریکات کو متعلقہ اعضا تک پہنچاتے ہیں اور متعلقہ اعضا سے آنے والی تحریکا ت کو مرکزی عصبی نظام تک پہنچاتے ہیں۔مرکزی عصبی نظام سے آنے والے جو اعصاب جلد میںداخل ہوتے ہیں،وہ جلد کی اندرونی تہہ ادمہ (Dermis)میں موجود چھوٹی چھوٹی شریانوں کی دیوار کے سادہ عضلات میں منقسم ہوجاتے ہیں۔نیز بالوں کو حرکت دینے والے عضلات اورجلد میں پائے جانے والے پسینے کی غدود میں بھی یہ اعصاب موجود ہوتے ہیں۔جلد سے مرکزی نظام عصبی کی طرف پیغامات لے جانے والے اعصاب کے سرے (آخذے)مخصوص اورمختلف قسمو ں کے ہوتے ہیں۔ یہ سرے فرد کے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں اورپھر یہ مرکزی عصبی نظام کو جو پیغامات بھیجتے ہیں اس کے نتیجے میں دماغ میں احساسات پیداہوتے ہیں۔ یوں ان ذرائع سے ہم اپنے جسم کے اردگرد کے ماحول کے بارے میں علم حاصل کرلیتے ہیں۔
جب ننگی جلد پر بالائے بنفشی شعاعیں براہ راست پڑتی ہیں توجلد کی برادمہ (Epidermis) میں پہلے سے موجود ایک مادہ وٹامن ڈی میں تبدیل ہو جاتاہے۔ یہ وٹامن بعدمیں جسم میں جذب ہو جاتاہے اورکیلشیم کے انجذاب میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ جلد ایک بہت زیادہ موثر حسی عضو ہے۔ اس میں ایسے اعصاب کے سرے پائے جاتے ہیں جو چھونے ،درد محسوس کرنے اوردرجہ حرارت میں تبدیلی کو دماغ میں محسوس کرانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ہماری جلد ایسی اطلاعات کا ایک اہم ذریعہ ہے جن کی بناپر ہم جلتی آگ جیسی نقصان دہ تحریکوں (Harmful Stimuli) سے خود کو دور کرلیتے ہیں اوراپنے آپ کو محفوظ مقام پر لے جاتے ہیں۔
ساخت کے لحاظ سے جلد دو تہوں پرمشتمل ہوتی ہے۔ ایک بیرونی پتلی تہہ جس کو برادمہ (Epidermis)کہتے ہیں۔یہ تہہ برحلمی (Epithelial)خلیوں پر مشتمل ہوتی ہے جو باہم بہت سے زیادہ ٹھنسے ہوتے ہیں۔اس کے نیچے ایک اندرونی موٹی تہہ ہوتی ہے،جو ادمہ (Dermis) کہلاتی ہے۔
یہ دونوں تہیں ایک دوسری کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔البتہ اگرجلد کو بہت زیادہ رگڑ پہنچے تواس کے نتیجے میں برادمہ چھل کر ادمہ سے الگ ہو جاتی ہے،جیسے ڈھیلا جوتا پہن کر چلنے سے پاؤں کی کھال چھل جاتی ہے۔ بہت زیادہ رگڑ سے جب برادمہ ادمہ سے الگ ہو جائے تو ان دونوں کے درمیان بین خلوی سیال (Interstitial Fluid)جمع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ دونوں تہیں مزید ایک دوسری سے الگ ہو جاتی ہیں اوریوں برادمہ چھالے کی شکل اختیارکر لیتی ہے۔ ادمہ کے نیچے ایک زیر جلدی تہہ (Suhcutaneous Layer)ہے۔اس تہہ کو زیر ادمہ یا تحت الجلد (Superficial Fascia or Hypodermis) کہا جاتاہے۔ یہ تہہ خلوی اورشحمی بافتوں پر مشتمل ہے۔ادمہ سے ریشے نکل کر نیچے اس زیر ادمہ میں داخل ہوتے ہیں اورجلد کو اس زیر ادمہ تہہ کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔یہ زیر ادمہ آگے نیچے موجود بافتوں اوراعضاسے مضبوطی کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔
برادمہ چار یا پانچ خلوی تہوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ برادمہ کی ان خلوی تہوں کی تعداد کاانحصار جسم میں جلد کے محل وقوع پر ہے۔ جہاں جلد کو بیرونی رگڑ کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتاہے ،جیسے ،ہتھیلیاں اورتلوے ،وہاں برادمہ کی پانچ تہیں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر تمام مقامات پر اس کی چار تہیں ہوتی ہیں۔
جلد کی اندرونی تہہ ادمہ ہے جسے بعض اوقات ''جلد حقیقی ''بھی کہا جاتاہے۔ اس میں خون کی نالیوں ،لمفی نالیوں ،اعصابی ریشوں اورجلدی غدود کا گھنا جال سا بنا ہوتاہے۔ یہ تمام چیزیں ایک لچکدار اورریشے دار بافت، واصلی بافت (Connective Tissue) میں مضبوطی سے جمی ہوتی ہیں۔یہ لیس دار ریشے ہی دراصل جلد میں تناؤ برقرار رکھتے ہیں۔بڑھاپے میں یہ ریشے کمزور ہو کر الاسٹک کی تاروں کی طرح ڈھیلے پڑجاتے ہیں اوریوں جلد میں جھریاں پڑجاتی ہیں۔یہ ادمہ ہتھیلیوں اورتلووں میں بہت موٹی اورآنکھ کے ڈیلے ،ذکر اورفوطوں میں بہت پتلی ہوتی ہے۔ پھر جسم کے بطنی جوانب کی ادمہ بھی موٹائی کا رجحان رکھتی ہے۔
جلد کے اس حصے میں پائے جانے والے غدود دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک پسینے کے غدود ، دوسرے چربیلے غدود۔ پسینے کے غدود پسینہ بنانے کے ذمہ دار ہیں۔یہ غدود ہمارے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ ان غدودوں کی وجہ سے ہمارے جسم کا درجہ حرارت ایک خاص حد سے بڑھنے نہیں پاتا۔ چربیلے غدود ایک طرح کی چربی خارج کرتے رہتے ہیں ،جسے شحم (Sebum) کہا جاتاہے۔ یہ چربی جسم کی سطح کے لیے ایک لحاظ سے حفاظتی کام سرانجام دیتی ہے۔ بالوں کی جڑیں اسی حقیقی جلد یعنی ادمہ میں موجود ہوتی ہیں۔ (1 )
عام طور پر کئی صدیوں سے لوگ یہی بات جانتے تھے کہ تمام جسم کو درد کا احساس ہوتاہے۔اگر انگلی کو کانٹا بھی لگ جائے توبجائے اس کے کہ صرف متاثرہ حصے ہی کو درد محسوس ہو، پورے جسم کو درد کا احساس ہوتاہے۔اور اس وقت لوگ اس بات کو نہیں جانتے تھے کہ انسان کی جلد کے اندر کچھ مخصوص رگیں اوراعصاب ہیں جو درد کی حس اور دوسری حسوں کو محسوس کرتے ہیں ،جن سے انسان کا جسم متاثر ہوتاہے اور وہ اپنا ردعمل ظاہر کرتاہے۔ یعنی انسان کی جلد کے اندر ہی Pain Receptors پائے جاتے ہیں۔ اور ابھی شعبہ علم الاعضا میں جدید تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسان کو ہر قسم کے درد کا احساس ،انسان کی جلد میں پائے جانے والے اعصاب اورمخصوص رگ جس کو رگ ختمی (Nerve Ending) کہتے ہیں،کے ذریعے ہوتاہے۔
انسان کے جسم کے اندر اہم ترین رگیں تین طرح کی ہیں جو مختلف چیزوں کو محسوس کرتی ہیں۔
1۔ چھونے کا احساس: خون کا چھوٹے سے چھوٹا جز (Corpuscles)اس حس کو محسوس کرتاہے جسے Meissners and Merkels Corpuscles کہتے ہیں۔
2۔ درد کا احساس : یہ جلد میں موجود رگ ختمی کے ذریعے محسوس ہوتاہے۔
3:۔ گرمی وحرارت کا احساس: اس حس کی ذمہ داری Ruffini Cylinders Corpuscles پرہوتی ہے۔
جلد کو درد کا احساس عموماً جلد کے جلنے کی وجہ سے ہوتاہے۔جلد کے جلنے کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پہلے درجے کا جلنا:… سورج کی تپش اور گرمی سے جلد کی اوپر والی سطح (Epidermis) متاثر ہو جاتی ہے اور اس جگہ میں سوجن اور ورم پیدا ہوتاہے اور جگہ سرخی مائل ہو جاتی ہے۔جس سے انسان تکلیف محسوس کرتاہے۔اور عام طورپر یہ تکلیف دو سے تین دن میں ختم ہو جاتی ہے۔
دوسرے درجے کا جلنا:… اس درجے کے جلنے میں انسان کی جلد کا اوپر والا حصّہ (Epidermis)اور اندرونی حصّہ (Dermis) ،دونوں زخمی ہو جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں۔دونوں حصّے آپس میں علیحدہ ہو جاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ان دونوں حصّوں کے درمیان بدن کی رطوبات خون سے الگ ہوکر جمع ہو جاتی ہیں۔ اس صورت میں متاثرہ آدمی کو بہت سخت درد ہو تاہے اورآبلہ یا چھالہ بن جانے کے بعد رگِ ختمی ننگی ہو جاتی ہے اور جب اس کو رگڑ لگتی ہے تو اس کی تکلیف اور درد میں اور اضافہ ہو جاتاہے۔ اس طرح کی جلد کو اپنی اصلی حالت میں واپس آنے اور صحت مند ہونے میں تقریباً دو ہفتے لگ جاتے ہیں۔
تیسرے درجے کا جلنا:… اس درجے میں جلد کی پوری تہہ جل جاتی ہے اور ہو سکتاہے کہ زخم پھٹوں اور ہڈیوں تک پہنچ جائے۔اس صورت میں جلد میں لچک ختم ہو جاتی ہے۔اور وہ خشک اور کھردری ہو جاتی ہے۔ اس حالت میں متاثرہ شخص کو زیادہ درد نہیں ہوتا کیونکہ رگِ ختمی اوردرد کو محسوس کرنے والے اعصاب تقریباً مکمل طورپر جلنے کی وجہ سے ناکارہ ہوجاتے ہیں( 2)۔ 
اسی بات کی طرف اشارہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ ارشاد ہوتاہے: 
 
)اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَاسَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَارًاط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُواالْعَذَابَ ط
 اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا(
'' جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکارکردیاہے انہیں بالقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تواس کی جگہ دوسری کھال پیداکردیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں'اللہ بڑی قدرت رکھتاہے اوراپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتاہے''۔ (3) 

یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ '' جیسے ہی ان کے جسموں کی کھال جل جائے گی '' کیونکہ جلنا تو تھوڑا بھی ہوسکتاہے۔بلکہ فرمایا '' جیسے ہی ان کے جسموں کی کھال گل جائے گی ''یعنی جب دردکومحسوس کرنیوالے اعصاب اور رگیں جل جائیں گی تو تب اللہ تعالیٰ ان کی جگہ تازہ رگوں والی جلد پہنا دے گا کہ جس سے ان کو درد کی تکلیف کا احساس مسلسل ہوتا رہے۔
امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ''ایک ایک کافر کی سو سو کھالیں ہوں گی 'ہر ہرکھال پر قسم قسم کے علیحدہ علیحدہ عذاب ہوتے ہوں گے۔ ایک ایک دن میں ستر ہزار مرتبہ کھا ل الٹ پلٹ ہوگی یعنی کہہ دیا جائے گا کہ پھر لوٹ آئے وہ پھر لوٹ آئے گی ...حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی کہتے ہیں کہ ایک ایک ساعت میں سوسو بار بدلی جائے گی۔ ( 4)
پروفیسر ٹیجاٹا ٹیجاسین(Professor Dr. Tegata Tejasen) جو تھائی لینڈ کی ''چیانگ مائی یونیورسٹی '' کے شعبہ علم تشریح الاعضا(Anatomy) کے چیئر مین ہیں ، نے جلد میں پائے جانے والے پین ریسیپٹرز پر تحقیق میں بہت وقت صرف کیا ہے۔ شروع میں وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ قرآن نے اس جیسی سائنسی حقیقت کو 1400 سال پہلے بیان کیا ہوگا۔ بعد ازں انہوں نے قرآن مجید کی اس خاص آیت کے معانی پر تحقیق وجستجوکی۔ اس تحقیق کے نتیجے میں پروفیسر ٹیجاٹا ،قرآن مجید کی اس سائنسی مطابقت پر اس قدر متاثر ہوئے کہ سعودی عرب کے شہر ریاض میں '' قرآن وسنت میں سائنسی نشانیاں '' کے موضوع پر ہونے والی آٹھویں سعودی میڈیکل کانفرنس میں حاضرین کے سامنے بڑے فخر سے کلمہ طیبہ پڑھنے کا اعلان کردیا۔(5)
طب جدید نے دریافت کیا ہے کہ وہ اعصاب جو درد کاادراک کرتے ہیں خواہ وہ درد چوٹ لگنے ،جلنے یا شدید گرمی وسردی کی وجہ سے ہو وہ اعصاب فقط جلد میں ہی پائے جاتے ہیں ،یعنی اگر جسم میں سوئی چبھوئی جائے تو درد صرف جلد پر ہوگا لیکن اگر سوئی جلد سے آگے گزارد ی جائے توبقیہ گوشت میں فی الواقع درد نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنم میں دوزخیوں کی جلد جلنے کے بعد اس کو تبدیل کرتارہے گا تاکہ ان کو جلنے کا عذاب برابرہوتارہے۔


چنانچہ جدید سائنس نے جس حقیقت کوحال ہی میں دریافت کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کو 1400 سال پہلے ہی قرآن مجید میں ذکر کرکے اپنے رب العالمین کے ہونے کا ثبوت منکرین اورمفکرین کے سامنے پیش کر دیاہے۔ اور اب بھی اگر کوئی قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام نہ مانے تو وہ اپنی بدقسمتی وبدبختی کا ما تم کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہدایت کے منکر کو ہدایت نہیں دیتا۔
 
حواشی
.
(1 )۔ ہماری جلد،اردو سائنس بورڈ لاہورسے اقتباس
http://www.nmsl.chem.ccu.edu.tw/tea/SKIN_910721.htm
(2)۔http://www.islamicmedicine.org/medmiraclesofquran/medmiracleseng.htm#pain
(3)۔ النساء، 4:56
(4)۔تفسیر ابن کثیر ۔جلد اول ۔صفحہ 568
(5)۔بحوالہ ، قرآن اینڈ ماڈرن سائنس ، از ڈاکٹر ذاکر نائیک ، صفحہ 64
سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ، صفحہ 174-176
www.islam-guide.com

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی