انسان کی پیشانی اور قرآن حکیم



 انسان کی پیشانی اور قرآن حکیم

ابو جہل اسلام کا دشمن تھا،وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کے لیے ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن مجید میں فرماتاہے:
(کَلَّا لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ لا لَنَسْفَعًا م بِالنَّاصِیَةِ ۔ نَاصِیَةٍ کَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ )
'' ہرگز نہیں ،اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے، اس پیشانی کوجو جھوٹی او رسخت خطاکارہے'' (1) 
اس آیت میں پیشانی کا خاص طورپر ذکر کیا گیا ہے۔جس سے اس کی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔جدید طبی تحقیق نے مندرجہ بالا آیت کریمہ میں موجود ایک ایسے نکتے کی طرف نشاندہی کی ہے کہ جس کے متعلق ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج میڈیکل سائنس نے ہمیں یہ معلومات فراہم کی ہیں کہ انسان کے دماغ کا اگلا حصّہ جسے Prefrontal Areaکہتے ہیں،سامنے والے حصے (پیشانی )میں واقع ہے اورجو کسی اچھے یابرے کام کے کرنے کے بارے میں سوچ بچار اور تحریک پیدا کرتاہے اور یہی حصّہ انسان کے سچ یا جھوٹ بولنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ (2)
ایک اور کتاب میں انسانی دماغ کے متعلق لکھاہے کہ:
''اسباب ،دوراندیشی کے متعلق منصوبے اورحرکت کی طرف پیش قدمی سر کے سامنے والے حصے پیشانی میں وقوع پذیر ہوتے ہیں جس کو (Prefrontal Area)کہتے ہیں''۔(3)





پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور کے مطابق سائنس دان سر کے سامنے والے حصہ پیشانی کے اس فریضہ منصبی کو پچھلے ساٹھ سالوں کے دوران دریافت کرپائے ہیں۔(4)
مندرجہ بالا آیت ِ کریمہ میں چونکہ ذکر ابوجہل کاآیا ہے لہٰذا اسی وجہ سے یہاں پیشانی کو سخت خطارکار اور جھوٹا ہی کہا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا کے مطابق جد ید تحقیق نے دریافت کیا ہے کہ اگر دماغ کا یہ حصہ کسی و جہ سے ناکارہ ہو جائے تو وہ انسان اخلاقی پستی کاشکارہوجاتا ہے۔اس حصے میں نقص واقع ہونے سے انسان برے کاموں کے متعلق سوچنا شروع کر دیتاہے اور آخر کار وہ اپنے مسائل کو حل کرنے میں بھی ناکام ہو جاتا ہے۔
جھوٹ کی شروعات اسی حصے (Frontal Lobes ) کے مرکز سے ہوتی ہے۔دماغ کا یہی حصہ جھوٹ بولنے پر اکساتا ہے اور اس پر عمل کروانے کے لیے جسم کے دوسرے حصوں کو ہدایات بھی دیتا ہے۔دماغ کو تین طرح کی جھلیوں نے گھیر اہوا ہے۔ان میں ایک Cerebral Spinal Fluid (CSF)) ہے۔ جس کا کام دماغ کی حفاظت کرنا ،غذا مہیا کرنا ، اور ٹھنڈا رکھنا ہے۔ جدید طبی تحقیق کے مطابق کھوپڑی کے اندر دماغ کا وزن 50 گرام ہوتا ہے جب کہ کل کھوپڑی کا وزن تقریباً1700 گرام ہوتا ہے۔
یونانی مفکر ارسطوکا خیال تھا کہ انسا ن کے خیال کا مرکز دل میں پنہاں ہوتا ہے، لیکن اب سائنس دانوں نے ارسطو کے اس خیال کو بالکل مسترد کر دیا ہے۔ دماغ ایک پیچیدہ مشین ہے، جس میں کروڑوں خلیے ہیں۔ممتاز ماہر نفسیات ولیم جیمز نے 1910ء میں کہاتھا کہ تمام لوگ اپنی تما م تر دماغی قوتوںکا بہت کم حصہ استعمال میں لاتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ دماغ کی کتنی قوتیں ہیں اورانہیں کس طرح استعمال میں لانا ہے۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ یہ بات عیاں ہے کہ ہر انسان دماغ کا دس فی صد حصہ استعمال کرتاہے۔ باقی حصوں کے بارے میں لاعلمی کی وجہ سے وہ استعمال کرنے کے قابل نہیں ہے۔
ماہرین یہ بات بھی معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دماغ کے حجم اورذہانت کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟برطانیہ کے ایک سائنس دان کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ کو میکینیکل واٹر کلاک بھی کہا جا سکتاہے۔ اسےہائیڈروپمپ (Hydro Pump)بھی کہا جاسکتاہے۔ ٹیلی فون سوئچ بورڈ بھی کہا جا سکتاہے اور سپر کمپیوٹر بھی کہا جاسکتاہے۔
کھوپڑی کے اندر انسانی دماغ دو نیم کروں پر مشتمل ایسے اعصابی نظام کا مجموعہ ہے جسے کائنات میں جسم اورماحول کے مابین حسی اورحرکی واسطے کی سب سے پیچیدہ ساخت کا غیر معمولی قدرتی کمپیوٹر خیال کیاجاتاہے۔ دیکھنے میں وہ ایک بھورے رنگ کابڑا سااخروٹ دکھائی دیتاہے۔ اس کی بیرونی پرت قشردماغ کہلاتی ہے ،جو دوسری ساختوں کو گھیرے ہوتی ہے۔ قشردماغ اس کے کل حجم کا اسی فی صد ہوتاہے اورارتقائی لحاظ سے یہ ایک جدید ترین ساخت ہے۔ قشردماغ (Cerebral Cortey)ان تمام ذہنی افعال اورسرگرمیوںکا ذمہ دار ہوتاہے جنہیں ہم ادراک وفہم کہتے ہیں۔
قشردماغ کو قشرکا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس کی مماثلت درخت کی بھوری چھال جیسی ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی کرہ دماغ میں اسی طرح اطراف پر لپٹا ہو اہوتا ہے۔انسانی دماغ کی اساسی اکائی دوسرے جانداروں کے دماغ کی طرح اعصابی خلیے (Neurons) ہیں۔یہ اعصابی خلیے اپنے تمام اشارے اپنے محوریوں (Axons)کے ذریعے بھیجتے ہیں۔اس کے دس کھرب ٹریلین خلیے ہیں جن میں ایک سو ارب اعصابی خلیے ہیں جو ایک دوسرے سے اتصالی مقامات پر ملے ہوئے باہم تعلق قائم رکھتے ہیں۔ان ہی کی وجہ سے تخلیقی ایج ،شعور اورحافظہ اعلیٰ انسانی صفات پیدا کرتاہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتاہے کہ دماغ کے اکثر حصے مخصوص افعال سرانجام دیتے ہیں جس کے لیے وہ پہلے سوچتا سمجھتا اورپھر حرکات میں ڈھالتا ہے۔



کنپٹی سے متصل حصے پر تحقیق سے معلو م ہو اہے کہ یہاں کا سماعتی مرکز مزید چھوٹے حصوں میں بٹا ہوا ہے جو آواز کی مختلف طول موجوں کے لیے مخصوص ہے۔اس کے برعکس مجموعی طورپر دماغ کے دوسرے علاقوں میں اس طرح کا کوئی براہ راست تعلق نہیں پایا جاتا۔ حالیہ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق نوے فی صد لوگوںمیں بایا ں نصف کرہ زبان کے علاوہ ریاضی جیسے منطقی اعمال کو کنٹرول کرتاہے جبکہ دایاں نیم کرہ ذوق لطیف یاجذباتی نوعیت کی بغیر بول چال والی سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے۔ادراک اورزبان دانی کا ربط پیداکرنے والی اعصابی ساختیں درجہ وار موخر دماغ اورپیش دماغ تک عقبی کنپٹی کا محور بناتی ہیں۔
جب انسان کسی بھی چیز کے بارے میں فکر وتدبر کرتاہے تواللہ جل شانہ انسان کے ذہن میں گردش کرنے والی تمام باتوں کو جانتا ہے اوراللہ جل شانہ اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے انسان کی قوت فکر کو ایک نئی فکر یا نئے زاویئے کے حل تک پہنچا دے۔اس صورت میں الہام دراصل اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے صادر ہوتا ہے۔اگرچہ ماہرین کا خیال ہے کہ کوئی بھی نظریہ انسان کے ذہن میں فکر وتدبر کے درمیان پیدا ہونے والی ذہنی کوششوں کے نتیجے میں ظاہر ہو تاہے اورذہنی کوششوں کے علاوہ کسی دوسری قوت کا اس میں دخل نہیں۔بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس عالم موجودات کی ہر چیز اللہ جل شانہ کے علم اوراس کی مشیت وقدرت سے مکمل ہوتی ہے۔ انسانی دماغ کے غوروفکر کے دوران دماغ کے خلیوں میں ہونے والی جسمانی اورذہنی تبدیلیاں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
انسانی دماغ (Cerebrum)کی ساخت کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ دماغ کے اگلے حصہ میں واقع اوپر کے دونوں حصوںمیں بلند عقلی مراکز پائے جاتے ہیں اوریہ حصہ انسانی دماغ میں شعوری یا ارادی خیال وعمل کا مرکز ومنبع سمجھا جاتاہے۔
فکر وتدبر کی ساری صلاحیتیں اسی حصے میں ہوتی ہیں۔سر کے اسی حصہ کو ناصیہ کہا گیا ہے۔ اس کاذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث (دعا)میں بھی آیا ہے:

(اللھم انی عبد ک وابن عبدک وابن امتک ناصیتی بیدک)
''اے اللہ بے شک میں آپ کا بندہ ہوں۔ آپ کے بندے اوربند ی کی اولاد ہوں،میری پیشانی
 آپ کے قبضہ میں ہے''(5)

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد ''ناصیتی بیدک''یعنی میری پیشانی آپ کے قبضے میں ہے میں اس بات کا مکمل اشارہ ملتا ہے کہ انسان یعنی اس کے دماغ کااگلا حصہ جو مغزکے دونوں ابھرے ہوئے حصوں پر مشتمل ہے،جن میں انسان کی بلند ترین عقلی وشعوری سرگرمیوں کے مراکز پائے جاتے ہیں۔یہ پیشانی اللہ جل شانہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے، وہ جس طرح چاہتاہے تصرف کرتاہے اورجس رخ پر چاہتاہے اسے ڈال دیتاہے اورجب اللہ کی مشیت ہوتی ہے وہ مغز دماغ کے دونوں ابھرے ہوئے حصوں میں پائے جانے والے جسمانی مراکز کی فکری سرگرمیوں کو نئے افکار پہنچاتاہے۔


دماغ ہڈیوں کے مضبوط قلعے میں یعنی کھوپڑی کے اندر خول دار اخروٹ کی طرح ہے۔ اخروٹ ہی کی طرح یہ دوملے ہوئے حصوں میں تقسیم ہے۔اللہ رب العزت نے ہمارے دماغ میں کتنی بڑی دنیا سمو دی کہ کروڑوں خلیے بھیجے کے اندر ہیں جو ہر طرح کے کام سرانجام دیتے ہیں۔سارے جسم میں پھیلے ہوئے ہزاروں اعصاب دماغ کے ساتھ منسلک ہیں جو وہاں سے ایک پیغام لاتے اورواپس لے جاتے ہیں۔گویا دماغ کا نظام ایک آٹومیٹک ٹیلی فون سوئچ بورڈ سے مشابہ ہے جس میں دوقسم کے اعصاب سے کام لیا جاتاہے۔ ایک وہ جو ٹرنک لائن سے مشابہ ہیں اوردوسرے جو لوکل ایکسٹینشن لائن کی طرح ہیں'نئی تحقیقات کے مطابق دماغ مصروفیت کے دوران وائرلیس کی لہروں کی سی لہریں نشر کرتا ہے۔ان کے کام کرنے کے طریقے کو واضح کرنے کے لیے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں،فرض کیجیے آپ دوپہر کے وقت آرام کررہے ہیں مگر اس کے بعد چار بجے آپ کوئی کام سرانجام دیناچاہتے ہیں،آپ آرام فرمارہے ہیں مگر آپ کے دماغ کے پچھلے حصہ میں یہ خیال موجود ہے کیونکہ یادداشت کی میکانزم نے اسے وہاں خاص طورپرنوٹ کر رکھاہے۔آپ گھڑی کی طرف دیکھتے ہیں، آپ کی آنکھیں جو کیمرہ سے بڑھ کر عجیب اورپیچیدہ میکانزم رکھتی ہیں،نہایت نازک اعصاب کے ذریعہ گھڑی کامنظر آپ کے دماغ تک پہنچاتی ہیں۔دماغ میں بعض خاص خلیے جو تعلیم اورعادات کی بدولت مدت سے گھڑیوں کی سوئیوں کی خاص حالت کو ''وقت ''میں ترجمہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔دماغ کے سوچنے والے حصہ کو پیغام نشر کرتے ہیں کہ اب چار بج چکے ہیں۔ کام کرناہو تو اٹھو،دماغ فوراً نیچے ٹانگوں اورپاؤں کو اپنا کام شروع کردینے کا حکم دیتاہے اور پاؤں اپنا کام شروع کردیتے ہیں اورآپ کو فوراً کرسی سے اٹھا دیتے ہیں اس طرح گویا آپ کھڑے ہوجاتے ہیں، ساتھ ہی دماغ کا وہ حصہ جس کاکام توازن قائم رکھنے سے ہے، سارے جسم کے عضلات کو پیغام بھیجتا ہے اوروہ کشش ثقل کے خلاف زورلگانے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں مگر بالعموم آپ کو ان پیغامات کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔ (6)


بہرحال جدید سائنسی معلومات نے قرآن مجیدکی حقانیت کی ایک اور دلیل اہل عقل وفکر کے سامنے رکھ دی ہے۔ چاہیں تو وہ اپنے دماغ کے اس حصے سے کسی خالق کی موجودگی کو پہچانیں یا جھٹلادیں 'اب یہ فیصلہ کرنا انہی کا کام ہے وگرنہ سائنسی گواہیاں تو پکارپکار کر کہہ رہی ہیں کہ اس عظیم الشان کائنات کو پیدا کرنے والا اور اس پُرعظمت اورحکمت والی کتاب یعنی قرآن مجید کا مصنف سوائے رب کائنات کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
حواشی
(1)۔ العلق۔ 96:15 -16
(2)۔A brief guide to understanding Islam with colorful illustrations, I.A.
Ibrahim, Page: 16 ]
(3)۔(Essentials of Anatomy & Physiology, Seeley and Otmers, P. 211)
(4)۔(The Scientific Miracles in the front of the Head, Moore & Others, P. 41)
(5)۔ مسند احمد
(6)۔ سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ، سے اقتباس

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی