قرآن اور بائبل میں مصری حکمرانوں کے خطابات اور جدید تحقیقات

        قرآن اور بائبل میں مصری حکمرانوں کے خطابات اور جدید تحقیقات


حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کی سرزمین پررہنے والے واحد پیغمبر نہ تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھی مصر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور سے کافی پہلے گزرے تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اورحضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات پڑھتے ہوئے چند باتوں کا موازنہ کرنا ضروری ہے۔قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام کے دور کے مصری حکمرانوں کو خطاب کرتے ہوئے، ''مَلِکْ'' (بادشاہ) کا لفظ استعمال کرتاہے۔جیسے

(وَقَالَ الْمَلِکْ ائْتُوْنِیْ بِہ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ ج فَلَمَّا کَلِّمَہ قَالَ  اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْن اَمِیْن )

'' بادشاہ نے کہا ''اُنہیں میرے پاس لاو تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کرلوں ''۔ جب یوسف نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا ''اب آپ ہمارے ہاں قدرومنزلت رکھتے ہیں اورآپ کی امانت پر پورابھروسہ ہے''   [i]

اس کے برعکس قرآن مجید حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت مصر کے حکمرانوں کو ''فرعون''کے نام سے پکارتا ہے  اور ایسا 60 سے زائد آیات میں پایا جاتاہے۔جیسے درج ذیل آیت کریمہ میں ارشاد ہے:

(وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍ م بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ اِذْجَآءَ ہُمْ فَقَالَ لَہ فِرْعَوْنَ اِنّیِْ لَاَ ظُنُّکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا)

''ہم نے موسٰی کونوواضح آیات(نشانیاں) دی تھیں توبنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے کہ جب موسٰی ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا ''موسٰی !میں تو یہ سمجھتاہوں کہ تجھ پر جادوکردیاگیاہے''  [ii]

جبکہ بائبل میں ہمیں ایسا کوئی فرق نہیں ملتا، اس میں حکمران خواہ موسی علیہ السلام  کے وقت ہوں یا یوسف علیہ السلام کے وقت کے ، ان کو فرعو ن ہی کہا گیاہے۔جیسے

'' اور فرعون نے یوسف سے کہا چونکہ خدانے تجھے یہ سب کچھ سمجھا دیا ہے اس لیے تیری مانند دانشور اورعقلمند کوئی نہیں ۔سو تُو میرے گھر کا مختار ہو گا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی ۔فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ ترہوں گااور فرعون نے یوسف سے کہا کہ دیکھ میں تجھے سارے ملک مصر کا حاکم بناتاہوں اور فرعون نے اپنی انگشتری اپنے ہا تھ سے نکال کر یوسف کے ہاتھ میں پہنا دی''۔ [iii] اور

'' پھر خداوند نے موسی ٰ سے کہا کہ صبح سویرے اُٹھ کر فرعون کے آگے جاکھڑا ہو اور اسے کہہ کہ خدا وند عبرانیوں کا خدا یوں فرماتا  ہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ میری عبادت کریں''۔ [iv]

بائبل سے نقل کردہ مندرجہ بالا آیا ت سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ بائبل کے مصنف کو حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کے وقت کے بادشاہوں کے خطابات کے بارے میں معلومات نہیں تھیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ تمام ادوار کے بادشاہوںکو لفظ ''فرعون '' سے ہی لکھتاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فرق کو جاننے کے لیے آدمی کو مصر کی تاریخ کا علم ہوناچاہیے مگرمصر کی قدیم تہذیب کے متعلق کوئی کچھ بھی نہیں جانتاتھا،سوائے ان چند مجسموں کے جو غزہ ،اسوان اور لگزر کے صحراؤں میں ریت کے اندر کافی حد تک دھنسے ہوئے پائے گئے تھے۔تاہم اس بے علمی کا اس وقت خاتمہ ہوگیا  جب قدیم مصری علاماتی تحریرہیر وغیلفی (Hieroglyphic Alphabet)دوسو سال پہلے پڑھ لی گئی ۔قدیم مصری زبان علاماتی زبان تھی جو زمانوں تک زندہ رہی۔ مگر دوسری اورتیسری صدی عیسوی میں عیسائیت اوردیگر ثقافتی اثرات کے غلبے کے باعث مصر نے اپنے پرانے عقائد کے ساتھ ساتھ اپنی علاماتی تحریر بھی ترک کردی۔ تب یہ زبان ایسے بھلا دی گئی کہ کوئی بھی ایسا شخص نہ رہا جو اسے پڑھ اور سمجھ سکتا۔یہ صورتِ حال تقریباً دوسو سال پہلے تک قائم رہی۔

قدیم مصری علاماتی تحریر کا راز 1799ء میں اس وقت کھلا جب 196قبل مسیح کے دور سے تعلق رکھنے والی ایک لوح (Tablet)جسے روزیٹا سٹون (Rosetta Stone)کہتے ہیں،دریافت ہوئی۔ اس کتبے کی خاص بات اس پر بیک وقت تین مختلف قسم کی تحریروں کی موجودگی تھی : علاماتی یا تصویری (Hieroglyphics)'قدیم مصری سادہ علاماتی تحریر اوریونانی (Greek)۔اس لوح پر موجود یونانی تحریر کی مدد سے قدیم مصری تحریر پڑھی گئی۔ اس لوح پر موجود تحریر کا ترجمہ ایک فرانسیسی جین فرنکوئی شمپولین  (Jean-Francoise Chmapollion)نے مکمل کیا۔ اس طرح ایک بھولی بھٹکی زبان اوراس میں موجود واقعات دنیا کے سامنے آئے۔ یوں اس زمانے کی تہذیب ،مذہب اورسماجی زندگی کے بارے میں معلومات کا ایک خزانہ دستیاب ہوا۔

مصر کی قدیم زبان میں فرعون کا مطلب ''بڑا گھر''تھا،تاہم اس نام کو بعدمیں مصر کے حکمرانوں نے اپنے خطاب کے لیے استعمال کیا۔تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فرعون کا خطاب اٹھارویں شاہی خاندان سے پہلے کسی کونہیں دیا گیا تھا۔یہ خاندان1539 قبل مسیح حکمران بنا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تاریخ سے قبل مصر کے حکمرانوں کا خطاب فرعون کی بجائے بادشاہ ہوتاتھا،حتیٰ کہ ہیکسوس کے وقت میں بھی جو کہ 1648 تا 1540 قبل مسیح مصر پر قابض رہے،یہ خطاب نہیں دیا گیا تھا۔اس لیے کہ مصر کی قدیم زبان میں ہیکسوس کامطلب ''مددگاروں کا بادشاہ'' تھا۔

اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یوسف علیہ السلام کا عہد موسی علیہ السلام سے قبل تھا۔جبکہ موسی علیہ السلام اس وقت مصر میں پیدا ہوئے کہ جب فرعون رعمسیس دوم حکمران تھا ۔چنانچہ یقینی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یوسف علیہ السلام  کا  مصر میں داخل ہونا ،اٹھارویں شاہی خاندان سے قبل تھااوریہ کہ یوسف علیہ السلام کے عہدمیں مصر کے حکمرانوں کو بادشاہ ہی کہا جاتاتھا ۔چناچہ سترھویں شاہی خاندان تک قطع نظر اس بات کے کہ حکمران مصری ہے یا غیر مصری (یعنی ہیکسوس) ، سب کو بادشاہ ہی کہا جاتاتھا۔

علاوہ ازیں ماہرین آثار قدیمہ کو مصر کے تیسرے شاہی خاندان کے وقت کا ایک پتھر بھی ملا ہے کہ جب بادشا ہ زوسر حکمران تھا۔ا س پتھر پر لکھی گئی تحریر کو کامیابی کے ساتھ پڑھ لیا گیا ہے ۔ا س تحریر کے مطابق بادشاہ زوسر اپنے دیوتاؤں سے سوال کررہا ہے کہ وہ سات سال سے جاری اس قحط کا خاتمہ کردیں کہ جس نے اہل مصر کو پریشان کر رکھا  ہے ۔چناچہ اس تحریر سے معلوم ہوتاہے کہ یوسف علیہ السلام اسی بادشاہ زوسر کے وقت ہی میں مصر کے حکمران تھے ۔کیونکہ قرآن مجید کی رو سے ہم جانتے ہیں کہ کہ یوسف علیہ السلام نے ایک خواب کی تعبیر کے نتیجے میں قحط کی پیشین گوئی کی تھی اور پھر ان ہی کے عہد میں ایساہوا بھی تھا۔علاوہ ازیں یہ تحریر بھی ا س بات کا ثبوت ہے کہ تیسرے شاہی خاندان کے وقت مصر کے حکمرانوں کا خطاب ''بادشاہ ''ہوتاتھا۔ اس پتھر پر پائی جانے والی قدیم تحریر قرآن مجید کی سچائی کی دلیل ہے۔[v]


 چناچہ مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن جس طرح مصر کے قدیم حکمرانوں کے خطابوں کے درمیان فرق کرتاہے وہ بالکل برحق اور جدید تحقیقات کے مطابق ہے جبکہ بائبل میں یہ فرق نہیں پایا جاتا۔بائبل میں مصرکے تمام سابق قدیم حکمرانوںکو فرعون ہی کہا گیا ہے جو کہ جدید تحقیقات کے مطابق غلط ہے۔میں یہاں پر ان مغربی مستشرقین سے یہ سوال ضرور کرنا چاہوں گا کہ جو اپنی یہودی اور عیسائی عوام کو یہ کہہ کر دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں کہ قرآن کا مصنف بائبل سے نقل کرتاہے کہ ،اگر قرآن بائبل سے نقل کرکے لکھا گیا ہے تو پھر قرآن کا مصر کے قدیم حکمرانوں کے درمیان خطاب کے فرق کو واضح کرنا اور پھر اس فرق کا جدید تحقیقا ت کے عین مطابق ثابت ہونا ،آخر کن معلومات کی بنا پر ہے ؟جب  بائبل کی اپنی معلومات ہی غلط ہیں توپھر قرآن نے کس طرح ان کو صحیح لکھ دیا ؟سچی بات یہی ہے کہ قرآن کے مخالفین اس کی روشنی کو جس قد ر مدہم کرنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں ، قرآن کی سچائی کی کرنیں اسی قدر تیز ہو کر عالم دنیا کو جگما دیتی ہیں۔


 خلاصہ کلام یہ کہ قدیم مصر کی تاریخ تیسری صدی تک قطعی بھلائی جاچکی تھی کہ انیسویں صدی عیسوی میں اس کی دوبارہ دریافت تک یہ تحریر کوئی بھی نہ جانتا تھا۔اس لیے قرآن کے نزول کے وقت مصری تاریخ کے بارے میں کوئی گہرا علم دستیاب نہ تھا۔چناچہ یہ حقیقت قرآن کے لا تعداد ثبوتوں میں سے ایک اورثبوت ہے کہ قرآن رب العالمین کا کلام ہے۔

[i] (یوسف 12:54 )
[ii] (بنی اسرائیل ، 17:101 )
[iii] ( پیدائش ، باب  41،آیت 39 تا 42)
[iv] ( خروج، با ب  9، آیت 13)

2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی